Skip to main content

Posts

Best Urdu 5 Gazals - Eswrites

1 :- Sab Ko Ruswa Bari Bari Kya Karo Har Mosam Mein Fatwe Jari Kya Karo Raaton Ka Neendon Se Rishta Toot Chuka Apne Ghar Ki Pehre Dari Kya Karo Qatra Qatra Shabnam Gin Kar Kya Ho Ga Daryon Ki Dawe-Dari Kya Karo Roz Qaseday Likhon Gonge Behron Ke Fursat Ho Tu Ye Begari Kya Karo Shabr Bhar Aane Wale Din Ke Khwab Buno Din Bhar Fikar Shab Bedari Kya Karo Chand Zayada Roshan Hai Tu Rehne Do Jugnu Bhaya Ji Mat Bhari Kya Karo Jab Ji Chahe Mot Bicha Do Basti Mein Lekin Batain Payari Payari Kya Karo Rata B-Din Darya Mein Roz Utarti Hai Is Kashti Mein Khob Sawari Kya Karo Roz Wohi Ik Koshish Zinda Rehne Ki Marne Ki Bhi Kuch Tayari Kya Karo Khwab Lapete Sote Rehna Thek Nahi Fursat Ho Tu Shab Bedari Kya Karo Kaghaz Ko Sab Sonp Dya Ye Thek Nahi Sher Kabi Khud Par Bhi Taari Kya Karo 2:- Patha Tha, Magar Baraf Ke Ghalon Ki Tarah Tha Ik Shakhs Andheron Mein Ujalon Ki Tarah Tha Khawbon Ki Tarah Tha, Na Khayalon Ki Tarah Tha Wo Ilm-e Riazi Ke Siwalon Ki Ta
Recent posts

کوئی پوچھے ذرا ان سے

کوئی پوچھے ذرا ان سے ! ‏کہ دل جب مر گیا ہو تو ‏کیا تدفین جائز ہے؟ ‏ ‏کوئی پوچھے ذرا ان سے ‏محبت چھوڑ دینے پر، ‏دلوں کو توڑ دینے پر، ‏کوئی فتوئ نہیں لگتا؟ ‏ ‏کوئی پوچھے ذرا ان سے ‏محبت اس کو کہتے ہیں؟ ‏جو سب کچھ ختم کرتی ہے ‏دلوں کو بھسم کرتی ہے، ‏اگر یہی محبت ہے! ‏ ‏تو نفرت کس کو کہتے ہیں؟

ماں

میں ہمیشہ سے بدتمیز رہا۔۔۔ بچپن میں اسکول جاتے ضد کرنا۔۔۔ کھانا کھاتے وقت ضد کرنا۔۔۔ یہ نہیں کھانا وہ نہیں کھانا۔۔۔ مجھے نہیں یاد کے پانچویں کلاس تک میں نے اپنے ہاتھ سے نہایا ہو، کپڑے پہنے ہو یا کھانا کھایا ہو۔۔ باپ، بھائی اور بہن کی محبت مجھے مِل نہ سکی۔ پرائمری سے میٹرک کلاس تک تو یہ عادت تھی کہ رات میں سونے سے پہلے کتابیں، کاپیاں، بیگ غرض کہ ہر چیز اِدھر اُدھر چھوڑ کر سو جاتا تھا۔ مگر صُبح آنکھ کھولتے ہی جب دیکھتا کہ ہر چیز بہت ہی سلیقے سے بیگ میں پڑی ہوئی ہوتی تھی۔ اور میرا بیگ نہایت ہی نفاست سے میز پر رکھا ہوا ہوتا تھا۔ اور جب کبھی بھی رات میں بارش ہوتی تو مجھ پر کمبل ڈال دیا جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی مجھے ہمیشہ سے گھر میں دو چیزوں سے بہت چیڑ تھی۔ ایک بارہ سے تیرہ گھنٹے ہاتھ سے چلائی جانے والی سلائی مشین کے شور سے اور دوسری روٹی کے کناروں سے جو گئ نا کگنے سے سوکھی رہ جاتی تھی۔ مگر وہ روٹی کے سوکھے ٹکڑے جو نا کھانے کی وجہ سے چھوڑ دیتا تھا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ وہ روٹی کے سوکھے ٹکڑے کبھی فروخت کیے گئے ہو۔ اور ہاں جب بھی مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی میں اُسی سلائی مشین کی طرف رُخ کرتا

صبر اور دعا

جنوری کی سردی نے ہر جگہ سناٹا کیا ہوا تھا سب لوگ اپنے کمروں میں ہیٹر کے اگے بیٹھے یا تو مونگ پھلی کا مزہ لے رہے ہونگے یا کافی یا چائے کا دور چل رہا ہوگا آج تو ہلکی بوندہ باندی نے ہر کسی کو گھر تک ہی محدود کر دیا ،،،،،پر ایک زی روح سردی کی پرواہ کئے بغیر چھت پر بیٹھی آنسو بہا رہی تھی ۔ اسکے آنسو بارش کے پانی کے ساتھ بہتے چلے جا رہے تھے۔ وہ جانے کب تک یوہی بیٹھی رہتی ،،،اگر اسکی ماں اسے ڈھونڈتے چھت پر نا آجاتی ۔ “سائرہ بیٹا یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ ،،تم رو رہی ہو ؟ ،،،اسنے آنکھیں اوپر کر کے ماں کی طرف دیکھا ۔اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی جو اسکا حال دل بیان کرنے کے لئے بہت تھی۔اماں اسے اٹھا کر کمرے میں لے گئی ۔اسکو کمبل اوڑھا کر اسکا سر اپنی گود میں رکھ کر بالوں کو سہلانے لگی ،،،،،ہیٹر کی وجہ سے کمرہ گرم ہو چکاتھا۔ “امی وہ میری قدر کیوں نہیں کرتا ؟،،،،،،کیوں اسنے اپنا دل میرے لئے سخت کر لیا ہے ،امی؟ ،،،،،میری غلطی کیا ہے امی؟،،،،،،،،وہ کافی دیر ماں کی گود میں سر رکھ کر سکون لیتی رہی،،،،وہ آج میکے ماں کو ملنے آئی تھی۔اسنے کبھی گلا نہیں کیا تھا آج جانے کیوں ماں کے سامنے دل کی بات بول بیٹھی ۔،،

ناکامی اور کامیابی

یہ کہانی ہے 1938ء کے کیرالی نامی ایک شخص کی جو انگلیرین آرمی میں تھا اور وہ اپنے ملک کا بہترین پستول شوٹر تھا جتنی بھی نیشنل چیمپیئن شپس ہوئی تھی اس ملک میں وہ کیرالی جیت چکا تھا اور اس بار بھی سب لوگوں کو یقین تھا کہ 1940ء میں جو اولمپکس ہونے والے ہیں وہ کیرالی ہی جیتے گا۔اس نےدو سال ٹریننگ پر لگائے تھے اور اس کا ایک ہی سپنا تھا ایک ہی مقصد تھا کہ مجھے اپنے اس ہاتھ کو دنیاکا سب سے بہترین ہاتھ بنانا ہے میں نے دنیاکو دکھانا ہے کہ میرا یہ ہاتھ کتنا قیمتی ہے اور اس سے میں دنیا کو ہرا سکتا ہوں اس کا جو سپنا تھا وہ اس میں کامیاب ہوگیا اور اس نے اپنے ہاتھ کو بیسٹ شوٹر ہینڈ بنا دیا صرف دو سال میں۔  1938ء میں آرمی کا ایک ٹریننگ کیمپ چل رہا تھا جب وہ آرمی میں تھا اس کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا اس کے اسی ہاتھ میں جس سے اس نے گولڈ میڈل جیتنا تھااس میں ایک ہینڈ گرنیڈ پٹ گیا اور وہ ہاتھ چلا گیا جو اسکا سپنا تھا جو فوکس تھا وہ سب ختم ہوگیا ۔اس کے پاس دو ہی راستے تھے ایک تو یہ کہ وہ پوری زندگی روتا رہے اور کہی جا کرچپ جائے اوردوسرا یہ کہ اپناجو مقصد تھا جو گول تھا اس پر فوکس کرنا تھا اس پر نہیں جو چ

اندھا لڑکا اور آدمی

ایک اندھا لڑکا اپنی ٹوپی کو پاؤں کے قریب رکھ کے ساتھ عمارت کی سیڑھیوں میں بیٹھ گیا۔  اس نے کچھ لکھا ہوا بھی اٹھا رکھا تھا جو کچھ یوں تھا: میں اندھا ہوں میری مدد کیجیئے۔  ٹوپی میں کچھ ہی سکے پڑے تھے۔  ایک آدمی پاس سے گزرہا تھا اس نے اپنی جیب سے کچھ سکے لیے اور ٹوپی میں ڈال دیے۔  اس نے پھر وہ لکھائی والا کاغذ لیا،  اسکی دوسری طرف کچھ الفاظ لکھے۔ اس نے کاغذ واپس رکھ دیا تاکہ جو کوئی بھی گزرے وہ اسے دیکھ سکے۔  جلد ہی ٹوپی پیسوں سے بھرنے لگی۔  اب ذیادہ لوگ اندھے لڑکے کو پیسے دینے لگے۔  اس روز دن کے وقت وہ آدمی حالات دیکھنے کے لیے واپس آیا۔ لڑکے نے اس کے قدموں کی آواز کو بھانپ لیا اور پوچھا: کیا تم ہو وہی جس نے صبح میرے کاغذ پر کچھ لکھا تھا؟  تم نے کیا لکھا تھا؟  آدمی نے کہا میں نے صرف سچ لکھا،  میں نے وہی بات جو تم نے لکھ رکھی تھی،  ایک مختلف انداز میں لکھی۔  میں نے لکھا تھا: آج کا دن بہت پیارا ہے مگر میں اسے دیکھ نہیں سکتا۔  کیا آپکو لگتا ہے کہ دونوں باتوں میں ایک ہی بات کہی گئی تھی؟  جی ہا، بالکل۔  دونوں لکھائیوں نے لوگوں کو بتایا کہ لڑکا اندھا ہے۔  دوسری لکھائی نے لوگوں کو بتایا کہ وہ

بنتِ حوس

27 اکتوبر کا سورج اپنی آب و تاب سے نئے دن کا پیغام لیے طلوع ہو رہا تھا. چڑیوں کی چہچہہٹ کانوں میں پڑ رہی تھی. منے کی ماں گائے کا دودھ دوہنے میں مصروف جبکہ منے کا ابا اپنے اوزار لیے کھیتوں کی جانب نکلنے کی تیاری کررہا تھا بہر سے کچی سڑک پر گدھا گاڑی پردو نوجوان مویشیوں کیلئے گھاس کاٹنے کیلئے جا رہے تھے دور بستی سے شہر جانے والی اکلوتی بس ہارن بجا تے اور کچی سڑک پر مٹی دھول اڑاتی ہوئی رواں دواں تھی. شہر جانے والے مسافر بس کے ہارن سن کر سڑک کی جانب دوڑے چلے آ رہے تھے. گاؤں کے تالاب میں پانی بھرنے کیلئے بچیاں سر پر مٹکے لیے ایک دوسرے کے ساتھ چہہ مگوئیاں کرتی ہوئیں پہنچ رہی تھیں. ایک پانی بھر لیتی تو دوسری اسکے سر پر مٹکا رکھ کر اسے روانہ کرتی اسی طرح گاوں کی تمام بچیاں و خواتین آ جا رہی تھیں. ساتھ اچھلتے کودتے اور ٹائر چلاتے بچے بھی.... تالاب سے پانی بھرتے ہوئے14 سالہ (ش) بی بی سر پر پانی کا مٹکا لیے اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ گھر کی جانب آ رہی تھی کہ اسے محسوس ہوا کہ کوئی ہے جو انکو گھیر چکا ہے. پھر دیکھتےہی دیکھتے چند افراد ان پر ٹوٹ پڑے اور آتے ہی ش بی بی کا ہاتھ پکڑا اسی دوران ش بی بی کے